اک خواہش کا بُت
خدا کیا جا سکتا ہے
صبر کو پارس
صنم کو زندہ کیا جا سکتا ہے
ابھی بکھرتا ہے خیال
ہجر کے پیہم نہ ہونے سے
عشق ہو جائے تو
احساس کو وحی
ایمان کو مکمل کیا جا سکتا ہے
ٹوٹ رہا ہے خمار جیسا
چھا رہا ہے خمار جیسا
اُس کے آنے جانے کو
مُستقل زخم
مسلسل دوا کیا جا سکتا ہے
سلسلۂ ملاقات نہیں ہے کوئی
غافل التفات ہوں، یوں بھی نہیں
تجسسِ فردا میں غلطاں
حال کی بے چارگی سے
نبٹا جا سکتا ہے
اُداسی یہ ہے کہ
حوادثِ حیات بازی لے جائیں گے
ہم صلیبِ نارسائی پر
جھول جائیں گے
یعنی تمہیں بھول جائیں گے؟
اس محال اندیشی پر تو
مُسکرایا جا سکتا ہے
Advertisements
بہت خوب ! خوبصورت احساس کا پرمعنی اظہار, ایسی حسین کشمکش میں یقینا مسکرایا جاسکتا ہے