ہر تیرگی سے اُلجھ کر جیتا ہے تیرے چہرے کا نور
ہر بزم میں چراغاں ہے تیرے خیال کے سائے کا
ہر خلوت میں رُوبرو ہے تیری چشم کی اُکساتی لو
ہر رُخسار پہ جگمگاتا ہے تیری جدائی کا آنسو
ہر خمِ لب پر چھلکی ہے تیری پیاس کی ضیا
ہر جسم سے اُٹھا ہے تیری جانب کوئی بانہیں پھیلائے
ہر روح کے دشت میں تیرے ساون کی پیاس ہے
گلیاں تیرے قدموں کی امید سے مخمل ہیں
ہوا تیری خوشبو کے بوسے کھوجتی دیوانی ہے
آسمان تیرے لیے شمس و قمر کی نیاز لیے جھکتا ہے
میں یہاں بھی تیرے عشق میں تونگر ہوں
میں یہاں بھی تیرے لیے سر تا پا کشکول ہوں
تُو یونہی میرا محرم و غنی ہے
میں یونہی تیرا محروم و مفلس ہوں
تجھ سے کچھ بھی مبرا نہیں
اور میں تجھ سے ابھی بھی بھرا نہیں