مسافت کی طوالت ہے ایسی
کہ وصل کا پارس تو کیا میسر ہو
ہجر بھی کامل خسارہ نہیں
میں خود اپنی تلاش میں ہوں
زمانے کو یہ اہتمامِ شوق گوارا نہیں
تمھارے جسم کا ساحر چراغ ہو
یا روح کی پشیمان کرتی سادہ لوحی
میری طلب یک پہلو نہیں
میری حد کو گناہ ثواب کا گوشوارہ نہیں
ساتھ چلنا ہو یا الگ بھٹکنا ہو
کنارا ڈھونڈنا ہو وحشت کا
یا منجدھار میں جنوں اچھالنا ہو
ہنستے ہوئے خاک بر ہونا ہو
کہ راکھ میں نارِ جہنم پالنا ہو
کسی بہشت کو تو سلیقۂ انتہا ہو
کوئی گھڑی تو آئے پوری شان سے
کسی افق سے کوئی بولے
میرے دامن میں کوئی ٹوٹتا تارہ نہیں
گورنشیں کو ازبر ہے گریۂ آرزو
یا زندگی بنجر خواب ہے
میرا راز مجھ پر نہیں کھلتا
میرا اذنِ کُن بھی رائیگاں ہے
میری صدائے فغاں بھی زیاں کوش
کیا کہوں کہ
جیون جال تنگ ہوتا جاتا ہے
اور مزاجِ اجل رسم آرا نہیں
ہو سکتا ہے میری بنیاد دہل گئی ہو
یا میرا آسماں قیامت پکارا ہو
کچھ ہار گیا ہے مجھ میں
و گرنہ میں تو کبھی ہارا نہیں