حساب جاتا رہا

رہبر و راہزن کا حساب جاتا رہا

کتنے شناساؤں کا نقاب جاتا رہا

طلسمِ خواہش سے آزاد ہوا تو
میرے محبوب کا حجاب جاتا رہا

یعنی وہ مِلا مجھے میری نفی میں
اے جنوں، تیرا ایجاب جاتا رہا؟

عُمرِ رفتہ سے پوچھ خراباتِ من
کیسی جنتوں کا سراب جاتا رہا

نہ جھانک وقت کی گھور چشم میں
پھر نہ کہنا، کہاں شباب جاتا رہا

اسکو دیکھا ہمنواؤں کی داد سمیٹتے
پھر اسکے پہلو کا خواب جاتا رہا

اک لمسِ نظر کافی نہ تھا سیرابی کو
کیونکر ہمہ تشنگی کا ثواب جاتا رہا

وہ پوچھتے ہیں جلوۂ جاناناں کیا ہے
واقفانِ کرامات سے جواب جاتا رہا

شوریدہ سری بھی بچا نہ سکی مجھے
میں گُمشدہ بھی تیرے ہمرکاب جاتا رہا